Site icon Rozana News 24×7

مانو لکھنؤ کیمپس میں مولانا آزاد یادگاری خطبہ اور انعامات کی تقسیم

مولانا آزاد

مولانا آزاد ایک بلند پایہ ادیب اور ممتاز صحافی کے طور پر ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔پروفیسر سراج اجملی

مولانا آزاد کی شخصیت اور مزاج کی تہذیب و تشکیل میں اعلی درجے کی مذہبی فکر کار فرما تھی۔ ان کے مزاج میں تضادات کا ایک سلسلہ تھا لیکن اس کے باوجود ان کی ادبی حیثیت کو بہت جلد نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ وہ ایک باوقارادیب اورممتاز صحافی کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

حالی وشبلی جیسے شہرہ آفاق ادیبوں نے ان کی شخصیت پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ان خیالات کا اظہار اردوکے ممتاز ادیب،شاعر اورنقاد پروفیسر سراج اجملی نے آج یہاں لکھنؤ میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے سٹ لائٹ کیمپس میں مولانا آزاد یادگاری خطبہ کے دوران میں کیا۔وہ مولانا آزاد کے ادبی وصحافتی کارنامے کے موضوع پر خطاب کررہے تھے۔

کیمپس کی انچاج ڈاکٹر ہما یعقوب نے مہمانوں اور حاضرین کا خیر مقدم کیا۔انھوں نے خیر مقدمی کلمات میں کہا کہ تعلیم کے سلسلے میں ہمیں مولانا آزاد کا وژن یاد رکھنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ تعلیم سے ہی نفرت اور تعصب کو ختم کیا جاسکتا ہے۔تعلیم سے ہی اندھیرے کو مٹایا جاسکتا ہے۔مولانا آزاد نے ایک روشن دنیا کاخواب دیکھا تھا۔

مولانا آزاد ایک بلند پایہ ادیب اور ممتاز صحافی کے طور پر ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔پروفیسر سراج اجملی

اس موقع پر آزاد تقاریب کے دوران ریڈنگ آزاد اور بیت بازی کے مقابلوں میں پوزیشن لانے والی ٹیموں کوپروفیسر سراج اجملی کے دست مبارک سے مومنٹو اور سرٹیفکٹ سے نوازا گیا۔اس کے علاوہ مقابلے میں حصہ لینے والے تمام طلبہ کو بھی سرٹیفکٹ دی گئی۔اس موقع پر کیمپس کے طلبہ کا وال میگزین جو کہ ’کاروان خیال‘ کے نام سے ہے، اس کی رسم رونمائی پروفیسر سراج اجملی،کیمپس کی انچارج ڈاکٹر ہما یعقوب اور دیگر اساتذہ کے دست مبارک سے انجام دی گئی۔

پروگرام کا آغاز بی اے کے طالب علم محمد اشرف نے قرآن پاک کی تلاوت سے کیا۔ڈاکٹر اکبر علی نے آزاد تقریبات کی ایک جامع رپورٹ پیش کی۔ آزاد تقاریب کے کوارڈی نیٹر ڈاکٹر عمیر منظر نے نظامت کا فریضہ انجام دیا اور کنوینر ڈاکٹر ریاض احمد گنائی نے کلمات تشکر ادا کیے۔

سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ مولاناآ زاد نے اپنی راہ خود نکالی۔غبار خاطر مولانا کے جذبات و احساسات اور ان کی ادبیت کا شاہ کار ہے۔یہ کتاب مولانا کی تمکنت اور ان کی زندگی کے رویوں کی عمدہ مثال کہی جاسکتی ہے۔شاعری اور شعری اظہار پر انھیں جو قدرت حاصل تھی،اس کی مثال بہ مشکل ہی ملے گی۔پروفیسر اجملی نے کہا کہ مولانا آزاد اپنی تہذیب کا حوالہ ہی نہیں تھے بلکہ وہ ان کے حافظہ کا حصہ تھی۔

MANUU Campus Lucknow

یادگاری خطبہ کے دوران پروفیسر سراج اجملی نے یہ بھی کہا کہ مولانا آزاد کا صحافتی اظہار بھی خالص ادبی اظہار لگتا ہے۔مولانا نے عنفوان شباب میں ہی صحافت کے جو کارنامے انجام دیے اس کے لیے کبھی کبھی ایک زندگی بھی کم پڑجاتی ہے۔پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ مولاناآزاد نے اپنی راہ خود نکالی۔ان کے افکار و خیالات کی ایک بلند دنیا تھی،جہاں ایک مجتہد کی ہی رسائی ممکن تھی۔اس موقع پر کیمپس کے اساتدہ کرام،رسیرچ اسکالر،سابق طلبا،نیز طلبہ وطالبات اور مہمانان کی بڑی تعداد موجود تھی ۔

Exit mobile version