سیمینار مرحوم اصلاحی شخصیات اور اصلاحیوں کی قرآنی خدمات ” پر منعقد سمینار کے افتتاحی اجلاس میں مہمان خصوصی جناب عارف عمری صاحب نے اپنے کلیدی خطاب میں چند بڑی اہم باتیں کیں ، انھوں نے مدرسۃ الاصلاح کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ انیسویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں چلنے والی اصلاحی تحریکات میں ندوۃ العلما کی اصلاحی تحریک پورے ہندوستان میں چلی ، اور بیسویں صدی کے آغاز میں خطہء اعظم میں ‘ انجمن اصلاح المسلمین ‘ کی تحریک کا آغاز ہوا ۔ یہ دونوں تحریکیں اصلاح معاشرت کی تحریک ہونے کے باوجود ایک بڑی علمی تحریک کی شکل میں رونما ہوئیں اور دونوں تحریکوں میں بڑی حد تک مماثلت تھی۔
مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ یوپی
مدرسۃ الاصلاح میں اصلاحی شخصیات و خدمات پر دو روزہ سیمینار اختتام پذیر
علامہ شبلی اور علامہ فراہی نے ان دونوں تحریکوں پر اپنے گہرے فکری اثرات مرتب کئے ۔ علامہ حمید الدین فراہی کے منہج کو فضلاء مدرسۃ الاصلاح نے آگے بڑھانے میں جو خدمات پیش کیں وہ ناقابل فراموش ہیں ۔ انھوں نے مولانا فراہی کے علوم قرآنی پر مشتمل وقیع مسودات کو شائع کیا
ان کے معیاری تراجم پیش کئے اور قرآنی افکار کی ترویج میں کوشاں رہے ، یوں تو مولانا فراہی نے کراچی ، حیدرآباد ، علی گڑھ اور الہ آباد میں تدریسی خدمات انجام دیں ، ظاہر ہے ان کے سینکڑوں شاگرد رہے ہوں گے لیکن ان کے قرآنی فکر کو جن مایہ ناز ہستیوں نے آگے بڑھایا اور اس فکر کے نمائندہ کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی وہ اختر احسن اصلاحی ، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا بدرالدین اصلاحی اور مولانا اجمل ایوب اصلاحی سر فہرست ہیں۔
انھوں نے مولانا کے قلمی رسائل و مسودات ، تعلیقات و حواشی کو اردو زبان میں منتقل کرنے اور ان کو منظر عام لانے کی غیر معمولی سعی کی ۔ مولانا داؤد اکبر کے قرآنی مضامین فکر فراہی کی ترویج میں نہایت اہم ہیں، حالاں کہ مولانا فراہی کے فکر کو سمجھنے کے لئے اصل متن پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ اس ذیل میں مولانا امین اصلاحی اور ڈاکٹر عبید اللہ فراہی نے ان کی تالیفات کے بہترین تراجم پیش کئے۔
اور ان کے منہج فکر کی روشنی میں قرآن پر غور و خوض کرنے والوں اور اس نہج پر سوچنے والوں میں ابو اللیث اصلاحی ، مولانا عنایت اللہ سبحانی اور الطاف احمد اعظمی ہیں جنہوں نے اس فکر کو جذب کیا اور مختلف انداز سے اپنے نتائج فکر کو پیش کرتے رہے ، نیز کتابوں کی شکل میں مقالات و مضامین لکھے جو قرآنیات پر مشتمل وقیع سرمایہ ہیں۔
اسی طرح کچھ ایسے اصلاحی فضلاء ہیں جو فکری طور پر فراہیات کے دلدادہ تو تھے لیکن وہ اس فکر کے پابند نہیں رہے مثلا وحید الدین خان اور مولانا صدرالدین اصلاحی وغیرہ ۔ ان کا دائرہ کار الگ رہا ، اس ذیل میں دائرہ حمیدیہ کا بھی فکر فراہی کو متعارف کرانے اور نشر و اشاعت میں بڑا اہم رول رہا ہے ، ” الاصلاح ” کی اشاعت اس کا نقش اولین ہے ، نیز ” ادارہ علوم القرآن ” علی گڑھ نے بھی اس فکر کو نمایاں رکھا۔/
اس کی الگ خدمات ہیں ۔ تیسرا ادارہ تدبر قرآن و حدیث پاکستان میں موجود ہے جسے مولانا امین احسن اصلاحی نے قائم کیا تھا ، جس نے ایک ایسی ٹیم تیار کی جس کا مقصد مولانا فراہی کے افکار و نظریات کی ترویج تھا ، اس ادارے کی بھی قرانیات میں گراں قدر خدمات ہیں۔
اس ذیل میں خالد مسعود صاحب ، جاوید احمد غامدی صاحب کو اس فکر کا نمائندہ کہا جا سکتا ہے۔ ماضی میں مولانا فراہی پر جو سمینار ہوا تھا اس کے اثرات آج بھی لوگوں کے ذہن پر مرتسم ہیں ، اس طرح کے سمینار ہوتے رہنے چاہئیں۔
لیکن ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی علامہ فراہی کے قرآنی فکر پر اس قدر کام نہیں ہوا جس قدر ہونا چاہئے تھا ، اس کے اسباب تلاش کرنے چاہئیں ۔ اس ذیل میں ان کتابوں کی از سر نو اشاعت کی جانی چاہئے جو قدیم طرز پر چھپی ہیں اور آج تک شائع ہورہی ہیں ، انہیں جدید تقاضوں سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے ، مولانا فراہی کی کتابوں کو متعارف کرانے کے لئے عالم عرب میں بھی کام کرنا چاہئے۔
نیز مولانا فراہی کے مسودات پر حاشیہ لگانے کی ضرورت تھی اور اپنے مطالعے کو نتیجہ ءفکر کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت تھی ، جو کہ کم ہی ہوا ۔ اسی طرح اصول تفسیر میں حدیث کو بھی اصل اہمیت دی جائے ، مولانا نے اپنے اصول تفسیر میں حدیث کو محرف کتب سماوی کے خانے میں رکھا ہے جس سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ مولانا حدیث کو اہمیت نہیں دیتے،
ان مغالطوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔نیز احادیث مرفوعہ کی جو تاویلات مولانا نے پیش کی ہیں وہ متقدمین کے اصول سے متصادم ہیں اس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے ، فکر فراہی کی ترویج کے لئے مدرسۃ الاصلاح میں تخصص فی القرآن و تخصص فی الحدیث کا شعبہ بھی قائم ہونا چاہئے ۔ تاکہ ہم محدود ہو کر نہ رہ جائیں ۔
سمینار مدرسۃ الاصلاح: فکر فراہی عہد بہ عہد
اس کے بعد ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی صاحب نے ” فکر فراہی ـ عہد بہ عہد ” کے حوالے سے پر مغز گفتگو کی اور اس بات پر زور دیا کہ فکر فراہی یہ نہیں یے کہ ان کے تفسیری تصورات کو من و عن پیش کر دیا جائے بلکہ اس کی روشنی میں نئی تحقیقات پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔
علامہ شبلی نے نظام القرآن اور جمہرۃ البلاغہ پر جو مضامین لکھے اور فکر فراہی کا تعارف کرایا وہ نقش اولین کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اسی طرح سید سلیمان ندوی کے ” معارف ” تین مضمون فراہیات پر گراں قدر ہیں۔ انھوں مولانا فراہی کی وفات پر جو مضمون لکھا نہایت جامع ہیں ، اس میں فکر فراہی کا ایک احاطہ کر دیا ہے۔
دوسری چیز وہ رسائل و مجلات ہیں جو فکر فراہی کے تعارف کا بہترین ذریعہ ہیں ۔ اسی طرح تراجم کے ذیل میں تدبر قرآن کا ترجمہ مولانا فراہی کے فکر و منشا کے مطابق ہے ۔ فکر فراہی کی ترویج میں کئی ادارے اور حلقے بھی قائم کئے گئے ۔ اس کے باوجود ماضی میں اس طرح کا تعارف نہیں پیش کیا جاسکا جیسا کہ ہونا چاہئے تھا، مولانا نجم الدین اصلاحی صاحب کی ذات گرامی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ، مولانا ابو اللیث اصلاحی اور مولانا داؤد اکبر اصلاحی صاحب کے قرآنی مضامین فکر فراہی کے نمائندہ ہیں۔
اس ذیل میں مولانا بدرالدین اصلاحی صاحب شارح فکر فراہی کی حیثیت سے مولانا کی تالیفات پر کلمۃ الجامع کے ذیل میں جو کچھ لکھا اس کی جامعیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس میں انھوں نے کتاب کے مقصود و مواد کو بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے ۔
مولانا صدرالدین اصلاحی صاحب کے ہاں بڑا عمق ہے ان کی تصانیف میں فکر فراہی کی نمود ہے ، ڈاکٹر صاحب نے سلسلہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے مرزا اشفاق احمد اصلاحی صاحب کی اشاعتی خدمات کو بھی سراہا ۔ اس کے بعد ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی صاحب کی تصنیف ” ذکر فراہی” کو اس فکر کی ترویج میں ایک اہم کتاب قرار دیا اور مجموعی طور پر فکر فراہی کا عہد بہ عہد جائزہ لیا ۔
سمینار مدرسۃ الاصلاح: ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی کی چار کتابوں کا رسم اجراء
اس کے بعد ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی صاحب کی چار کتابوں پر ‘ تدبر قرآن ـ تجزیاتی مطالعہ ‘ مبصر مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی صاحب ، ‘ نگارشات ناصر’ ڈاکٹر علاء الدین اصلاحی صاحب ، ‘مکاتیب انیس’ مبصر مولانا ارشد اصلاحی صاحب اور ‘میزان القرآن ـ تعارف و تجزیہ’ مبصر مولانا نسیم ظہیر اصلاحی صاحب ، ” نے تعارف و تبصرہ پیش کیا ۔ آخیر میں ناظم مدرسہ محترم فخر الاسلام اصلاحی صاحب نے اپنے صدارتی کلمات میں مدرسۃ الاصلاح کے فکر و نہج پر طلبہ سے اہم خطاب کیا اور مدرسے کے مقاصد کو بروئے کار لانے کی تلقین کی ۔ اس طرح افتتاحی اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
سمینار مدرسۃ الاصلاح: انجمن طلبہ قدیم مدرسۃ الاصلاح کا عمومی اجلاس
بعد نماز عصر تا انجمن طلبہ قدیم مدرسۃ الاصلاح کا عمومی اجلاس ہوا جس میں اہم امور و تجاویز پر غور و خوض ہوا ۔
بعد نماز مغرب دوسرے اجلاس کا آغاز ہوا جس میں طلبہ مدرسۃ الاصلاح نے مجوزہ عناوین پر اپنے مقالات پیش کئے ۔ مقالات کے پہلے سیشن میں مرحوم اصلاحی شخصیات اور اصلاحیوں کی قرآنی خدمات پر کل 12 مقالے پیش کئے گئے ، جس کی صدارت مولانا نسیم ظہیر اصلاحی صاحب نے فرمائی،
آپ نے اپنے تاثراتی کلمات میں پیش کردہ مقالات پر پرمغز تبصرہ فرمایا اور طلبہ کی حوصلہ افزائی فرمائی اور مبارک باد دی ۔ دوسرے سیشن میں کل 9 مقالے پڑھے گئے، جس کی صدارت مولانا سرفراز احمد اصلاحی ندوی نے فرمائی اور اپنے تاثرات میں طلبہ کے مقالات پر حوصلہ افزا امید ظاہر کی کہ اس طرح کے سیمینار منعقد ہوتے رہنے چاہئیں تاکہ طلبہ کے اندر صحافت و خطابت کے جوہر پیدا ہوں اور بعد میں آنے والے طلبہ کے لئے راہ ہموار ہو۔
دوسرے دن 7 نومبر کے اجلاس کے تیسرے اور چوتھے سیشن میں بھی طلبہ نے جس اعتماد اور حوصلے سے اپنے مقالات پیش کئے اور سوال و جواب سلسلہ قائم رہا یقینا قابل رشک تھا ، تیسرے سیشن کی صدارت جناب ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی جامعی صاحب نے کی انھوں نے اپنے صدارتی کلمات میں طلبہ کو اس بات پر مہمیز کیا کہ یہ سلسلہ مستقل چلنا رہنا چاہئے۔
البتہ انھوں نے مقالات کے حوالے سے ایک اہم بات یہ کہی کہ مقالات میں سوانحی مواد زیادہ ہے ، حالاں کہ خدمات کا پہلو نمایاں ہونا چاہئے جس سے مقالہ میں جامعیت پیدا ہوتی ہے ، آپ نے طلبہ کی کاوشوں کو سراہا اور روشن مستقبل کے لئے دعا کی ۔ چوتھے سیشن میں جناب فضیل اصلاحی صاحب نے اپنے صدارتی تاثرات میں طلبہ کی حوصلہ افزائی کی اور مقالہ نگاری سے متعلق مختلف پہلوؤں پر توجہ مبذول کرائی ۔
اس سمینار کے اختتامی اجلاس میں معززین نے اپنے تاثرات پیش کئے اور مختلف حوالوں سے طلبہ کی رہنمائی اور مقالہ نگاری کے متعلق اہم گفتگو ہوئی ، جناب محمد عارف اصلاحی صاحب ، ڈاکٹر فیضان احمد اصلاحی صاحب ، محترم سہیل احمد اصلاحی صاحب معتمد تعلیمات مدرسۃ الاصلاح کے تاثرات پیش ہوئے ۔ مقالہ نگاروں کو انجمن طلبہ قدیم کی جانب سے مومنٹو اور سند اعزاز سے نوازا گیا ، آخیر میں خاکسار نے کلمات تشکر پیش کیا اور جناب جاوید احمد اصلاحی صدر انجمن طلبہء قدیم مدرسۃ الاصلاح کے صدارتی کلمات کے بعد دعا پر اس سیمینار کا اختتام ہوا ۔
سمینار کی خاص بات
اس سیمینار کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں اصلاحی فضلاء کی قرآنی و علمی خدمات کا ایک بھر پور جائزہ لیا گیا اور ان کی حیات و خدمات پر گراں قدر معلومات سامنے آئیں ، کچھ شخصیات ایسی تھیں جن کے تعلق سے مواد و معلومات کا حصہ بہت کم دستیاب تھا لیکن طلبہ نے اپنی تگ و دو کے ذریعہ ان کی حیات و کارناموں پر بڑی وقیع معلومات پیش کیں ۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ طلبہ نے جس شوق اور لگن سے اپنے مجوزہ عناوین پر مقالے تیار کئے قابل تحسین و مبارک باد ہیں۔
اس پیش رفت کو دیکھتے ہوئے معتمد تعلیمات جناب سہیل احمد اصلاحی صاحب نے اس بات کا عندیہ ظاہر کیا کہ اس طرح کے پروگرام کے لئے آئندہ بھی جو تعاون ہم سے آپ چاہیں گے ان شاء اللہ ہم اس کے لئے ہمہ تن تیار ہیں ۔ مدرسۃ الاصلاح میں سیمینار کی روایت بہت پرانی ہے۔
ماضی میں مختلف علمی ، قرآنی ، فقہی ، اور سیرت کے موضوعات پر سیمینار منعقد ہوتے رہے ہیں ، البتہ یہ سلسلہ برسوں سے موقوف رہا ، انجمن طلبہ ء قدیم نے اس جانب توجہ دی اور طلبہ کو یہ موقع فراہم کیا تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی قلمی صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھایا جائے جس سے ان کے اندر لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا ہو اور ایک سلسلہ قائم ہو جائے ۔
محمد مرسلین اصلاحی