یار بزرگ وا باوفا
ڈاکٹر شمیم احمد بھائی مرحوم کو خراج عقیدت
درد کو رہنے بھی دے دل میں دواہو جائے گی
موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی
اس کی نیم و ڈبڈباتی آنکھیں ، الجھی الجھی سانسیں اور ڈوبتے دل کی بے ترتیب دھڑکنیں جیسے مجھے کل یوں تسلیاں دے رہی تھیں ______مسافر اپنی منزل سے آہستہ آہستہ قریب ہورہا تھا اور اس کے چاہنے والے غبار راہ میں گم ہوتے ہوئے اس روٹھے راہی کو اب بھی واپس بلا لینے کے لیے آوازیں دیئے جارہے تھے _____ایک مسیحا دوسروں کو بے مروت بیماریوں کے دام میں پھنسنے سے بچاتے بچاتے خود اس صنف کی کسی ظالم پری کی محبت میں ایسا گرفتار ہوا کہ اس کے چنگل سے نکلنا اب اس کے لیے ناممکن ہوچلاتھا ______ حسن و عشق کا یہ کھیل کوئی نیا نہیں _ یہ دستور اور یہ چلن بہت پرانا ہے _ جسے بھی زندگی نے اپنی بانہوں میں بھرا قضا اسے اچک لے گئی _____یہی مشیت ایزدی اور یہی حکمت الہی ہے _ اسی میں رازہائے پنہاں اور اسی میں ہم انسانوں کی بھلائی ہے ____ ع ڈاکٹر شمیم احمد
زندگی فردوس گم گشتہ کوپاسکتی نہیں
موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے
جانے والے جتنے امیر ہوتے ہیں اتنی ہی بڑی جائیداد اپنے پیچھے چھوڑ جایا کرتے ہیں _کچھ قلندر صفت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی تہی دامانی کے باوجود اپنے کارناموں کی ایک لمبی جاگیر یادوں کی صورت میں دنیا والوں کے حوالے کر جاتے ہیں _یہ صوفی منش بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ صرف اہل خانہ اور اعزاواقارب ہی نہیں بلکہ اس کے گردوپیش رہنے والے ہر ذی نفس کو اس جاگیر میں اپنا حصہ لینے کا حق دے گیا _____ ہر امیر و غریب، چھوٹا بڑا ، ہر مذہب اور ہر برادری کے لوگوں کو یہ اعزاز بخشا کہ کوئی بھی اس کی اس چھوڑی ہوئی سلطنت کو اپنی کہ سکے ____ ایسی محبت ایسا خلوص ایسا ایثاراور ایسی بے نیازی مشکل ہی سے دیکھنے کو ملتی ہے ______ کبھی کوئی مریض اس وجہ سے اس کے علاج سے محروم نہیں رہا کہ اس کے پاس پیسے نہیں تھے _قرب و جوار میں کوئی ضعیف ایسا نہیں تھا جس کی عیادت اس نے اس کے گھر پر جا کر نہ کی ہو _ کبھی کوئی دکھ کا مارا کہیں کسی اور ڈاکٹر سے دوا لیکراس کے پاس مشورے کیلیے ایا ہو اور اس نے اسے جھڑک دیا ہو ؟ راہ چلتے چلتے وہ مریضوں کی فریادیں سن کر نسخے لکھ دیا کرتا اور حیا سے یہ بھی نہ کہ پاتا کہ وہ جاکر اسی کے دواخانے یا اس کے اپنے میڈیکل اسٹور سے دوالے لے _____دوستوں نے طنز کیے ہوں ، اپنوں نے چبھتے فقرے کسے ہوں ، غیروں نے دل دکھایا ہو اور اس نے بھولے سے بھی کبھی ان کی دل آزاری کی ہو؟
صبر و برداشت ، تحمل اور بردباری کا ایسا لبادہ اوڑھ رکھا تھا کہ غم جاناں اور غم دوراں دونوں کا رنگ بڑی خوبی سے اس میں جذب ہوجایا کرتا تھا ______ ادب پسند تھا ، انسانیت نواز تھا ، خوش اخلاق تھا اور خدا ترس بھی تھا _حکیم بھی تھا اور ذہین بھی تھا _ عالم دین بھی تھا اور دنیاوی علوم کا بھی حامل تھا _____میں عمر میں ، علم میں اس سے بہت کم تھا لیکن ایسا یارانہ برتا کہ مجھے بڑے یونے کا گماں ہوتا رہا _ ہر جمعرات کی شام میرے غریب خانے پر آکر مجھے اپنی محبتوں کا سہارا دیتا ، مجھے کچھ نہ کچھ لکھنے کیلیے تلقین کرتا رہتا اور کبھی کچھ لکھتا تو بہت حوصلہ دلایا کرتا _ میں جب پردیس رہتا تھا اور گھر والے بھی کبھی کوئی ضروری بات کرنا چاہتے تو مس کال کرتے اس وقت بھی وہ عظیم انسان صرف خیریت پوچھنے اور مجھ سے باتیں کرنے کیلیے خود یہاں سے فون کرتا اور سیکڑوں روپیے برباد کردیتا _ ایساپڑھا لکھا احمق اس مادی دنیا میں کہاں اور کس کو ملتا ہے؟
کبھی کبھی وہ مجھ بیوقوف کو اتنا بڑا بنادیتا کہ میں حیران رہ جاتا ، کہتا کہ” تم وہ واحد فرد ہو جس کے پاس مجھے آکر سکون ملتاہے” تو کجا من کجا اتنا بڑا اعزاز پاکر میں اپنے آپ پر فخر کرنے لگتا ______ اس کی یہی سچی محبت تھی اس کا یہی بے لوث پیار تھا کہ ضبط کرنے کی ہزار کوششوں کے باوجود جب اس کو اپنے کاندھے پر لیا تو وہ طوفان جو کل سے سر اٹھانے کے لیے مچل رہا تھا وہ تموج جو ساحل سے ٹکرانے کو بیتاب تھا اشکوں کی صورت بالاخر آنکھوں سے چھلک ہی پڑا _ لحد میں اسے رکھا جانے لگا تو اس کے بچھڑنے کا احساس شدید ہوتاگیا _ جیسے جیسے ایک ایک بانس سے لحد ڈھکی جارہی تھی ویسے ویسے اس کے دور ہونے کا یقیں ہوتا چلا جارہا تھا _ وہ روپوش ہوتا رہا اور میں آنسوؤں کی مالائیں اس کو پہناتا رہا ____ اور ایک میں ہی کیا نا جانے آج کتنی آنکھیں اشکبار ہوئی ہوں گی اور کتنے دل بہت دنوں تک روتے رہیں گے کہ اس کا سلوک اس کا کرم ، اس کی مہربانیاں اور اس کی عنایات بارش کے قطروں کی طرح ، چاند سورج کی کرنوں کی مانند سب کے لئے عام تھیں _ اس کا فیض ہر کسی کے لیے تھا اس کی محبتیں ہر کس وناکس کے لیے تھیں ____ع
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کیلیے
بقلم : عزیزالرحمن سنجر پور