ڈاکٹر احسان اعظمی کا تعلق اس سر زمین سے ہے جس کے لیے اقبال سہیل نے کہاہے کہ جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے ۔احسان اعظمی شاعری اور شاعری کے آداب ،لفظوں کے حسن بیان ،تلمیح و استعارہ کے چو مکھی استعمال کے ہنر سے خوب واقف ہیں۔ اعظم گڑھ
سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ کبھی استاد کہلوانے کے لئے نہ بضد رہتے ہیں اور نہ ہی انہیں یہ زعم رہتا ہے کہ میدانِ شاعری میں ان کا فرمایا ہوا ہی سب کچھ ہے ۔وہ شاعری کو احساسِ فکر کی عبادت سمجھ کر کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو اساتذہ سخن کا شعار ہوا کرتی ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ شاعری وارداتِ قلب کی حسین مصوری ہی نہیں بلکہ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کی مالا سازی بھی ہے ۔ان کی شاعری میں روح کو بالیدگی ،افکار و احساسات کو وسعت اور تخیل کو عروج حاصل ہے۔
لفظ کو بینائی عطا کرنے والا فنکار ڈاکٹر احسان اعظمی ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر مہتاب عالم بھوپال
احسان اعظمی کو اللہ نے بہت سی خوبیوں کا مالک بنایا ہے ۔وہ ماہر طب ہی نہیں بلکہ شاعری کے نباض بھی ہیں۔ ان كا کلام استعارہ و علامتوں کی فنکارانہ زر کاری، فنی بصیرت اور تجربات و مشاہدات کا حسین گلدستہ ہے۔ انہوں نے جس انداز میں اپنے عہد کو شاعرانہ خوبیوں کے ساتھ اشعار کے پیکر میں ڈھالا ہے اس میں روایات کی پاسداری اور جدیدیت کا عنصر نمایاں ہے۔
اعظم گڑھ : شبلی پوسٹ گریجویٹ کالج میں تزک و احتشام سے منایا گیا يوم شبلی
(شور سکوت شب) ڈاکٹر احسان اعظمی کا شعری مجموعہ دو سو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے ۔اس مجموعہ کے مطالعہ سے خوشی ہوتی ہے کہ احسان اعظمی کی فکر کا دریا رواں دواں ہے ۔ان کی شاعری زندگی کا مرثیہ نہیں بلکہ زندگی کا نغمہ ہے جسے ہر کوئی گنگنانا چاہتا ہے ۔لفظوں کا در و بست ،تشبیہ و استعارہ کا استعمال ،جدت طرازی اور ندرت بیان احسان اعظمی کی شاعری کا حسن ہے۔
مدرسۃ الاصلاح میں اصلاحی شخصیات و خدمات پر دو روزہ سیمینار اختتام پذیر
ان کی شاعری میں احساس کی لچک اور شعور کی پختگی جزو لاینفک کی حیثیت رکھتی ہے ۔ان کی غزلوں میں توانائی بھی ہے اور جذبات کی شعلگی بھی ،شبنم جیسی نرمی بھی ہے اور صحرا جیسی تپش بھی ،عشق کی کار فرمائیاں بھی ہیں ،رنگینیاں اور رعنائیاں بھی ،غم جاناں بھی ہے اور غم حیات بھی،داخلی جذبات بھی ہیں اور خارجی مشاہدات بھی ،طنز لطیف بھی ہے اور روایات کی پاسداری بھی جس نے روایت اور جدت کے حسین امتزاج کو جنم دیا ہے۔
مدرسة الاصلاح میں تقریب تقسیم انعامات کا انعقاد
انہوں نے اپنی غزلوں میں جن بحروں کا استعمال کیا ہے اس میں ایک خاص شیرینی اور نغمگی بھی پائی جاتی ہے اور اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ شاعری کے مزاج داں ہیں اور انہیں لفظوں کے برتنے پر دسترس حاصل ہے ۔احسان اعظمی کی خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کو نعرہ نہیں بننے دیا ہے۔
وہ دھیمے لہجے میں اپنی بات کرتے ہیں اور اس طرح کرتے ہیں کہ ان کی شاعری شعور سے عبارت ہو جاتی ہے ۔میں ان کے شعری مجموعہ (شور سکوت شب) کے لئے انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ ان کی شاعری عوام میں مقبول اور اہل نظر کے بیچ قبولیت کا درجہ حاصل کرے گی ۔
ڈاکٹر مہتاب عالم بھوپال